سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی پبلک اسکول پر 2014 میں ہونے والے حملے سے متعلق کیس کی سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس وقت میں تحقیقات سے متعلق رپورٹ تیار کرے۔
بدھ کو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر کے خلاف سیکیورٹی کوتاہیوں کا مقدمہ درج کیا گیا جس کی وجہ سے حملہ ہوا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی حکم وزیراعظم کو نہیں بھیجا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میں وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا یہ سنجیدگی کی علامت ہے؟ وزیراعظم کو بلائیں، ہم خود ان سے بات کریں گے۔ یہ اس طرح نہیں چلے گا۔‘‘
پچھلی سماعت پر، عدالت نے حکام کو غمزدہ والدین کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی تھی، جنہوں نے اس حملے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، جس میں 16 دسمبر 2014 کو 147 افراد، جن میں 132 بچے تھے، شہید ہوئے تھے۔
وزیراعظم نے غفلت برتنے والے سرکاری افسران کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا۔
بدھ کو ہونے والی سماعت کے موقع پر، وزیر اعظم نے پوڈیم پرآکر عدالت سے وعدہ کیا کہ وہ ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کریں گے جو حملے کا ذمہ دار ہے، حتیٰ کہ غفلت برتنے والے سرکاری افسران کے خلاف بھی۔
وزیراعظم خان نے کہا کہ جب حملے کی اطلاع ملی تو خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ ’’میں حملے کے دن پشاور گیا اور زخمی طلبہ سے ملا۔‘‘
اس وقت، [طلبہ کے] والدین صدمے میں تھے، انہوں نے یاد دلایا، جو کچھ بھی صوبائی حکومت کر سکتی تھی، وہ کر چکی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیراعظم سے کہا کہ عدالت ان کا احترام کرتی ہے لیکن “حکومت کے لیے اپنے بچوں کو کھونے والے والدین کے سوالات کا جواب دینا ضروری ہے”۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ والدین کہتے ہیں کہ وہ حکومت سے معاوضہ چاہتے ہیں۔ “وہ پوچھتے ہیں کہ حملے کے وقت سیکورٹی کا نظام کہاں تھا۔ سیکیورٹی اداروں کو دیے گئے فنڈز کہاں گئے؟ وہ کہاں استعمال ہو رہے ہیں؟”
چیف جسٹس نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وقت آنے پر عوام کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ “کارروائی کرنے کا مطلب ایف آئی آر درج کرنا نہیں ہے۔”
وزیراعظم نے جواب دیا کہ افغانستان کی صورتحال کی وجہ سے ملک میں دہشت گردانہ حملے بڑھ رہے ہیں۔ “کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مزید حملے ہوں گے؟” اعلیٰ جج نے پوچھا۔
وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے جج کو بتایا کہ اے پی ایس حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان تیار کیا گیا تھا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں “کوئی مقدس گائے” نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وہ عدالت کی طرف سے نامزد ہر ایک کے خلاف کارروائی کریں گے۔
نتیجتاً، سپریم کورٹ نے حکومت کو اس وقت کے اندر پیش رفت رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔
سابق آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف کوئی انکشاف نہیں ہوا
بدھ کو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ سیکیورٹی لیپس ہے اور حکومت کو ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ اس نے کہا کہ اس وقت تمام فوجی اور سیاسی حکام کو معلوم ہونا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایجنسیوں اور اداروں کے پاس ہر چیز کے بارے میں تمام معلومات ہوتی ہیں لیکن جب بات ’’اپنے لوگوں‘‘ کی حفاظت کی ہو تو وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت آپریشن ضرب عضب جاری تھا اور حملہ آپریشن کا جوابی کارروائی کے طور پر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اداروں کو سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے تھے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سابق چیف آف آرمی اسٹاف اور دیگر افسران کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی نتائج سامنے نہیں آئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چوکیداروں اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی کی گئی اور اعلیٰ حکام کوفرار ہونے دیا گیا۔ ’’دراصل کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔‘‘
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں حکومت سے گائیڈ لائنز لینے کے لیے کچھ وقت دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور انہیں وزیراعظم سے جواب طلب کرنا چاہئے۔
ٹی ٹی پی کی جنگ بندی
سماعت کے دوران حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان مذاکرات کا معاملہ بھی سامنے آیا۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست ایک گروپ سے مذاکرات کر رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کو سکولوں میں مرنے کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا۔
بنچ نے اٹارنی جنرل کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ عدالت کو حکومت کی جانب سے شہید بچوں کے والدین کی شکایات کے ازالے کے لیے اب تک کیے گئے اقدامات سے آگاہ کریں۔