ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (PICA) ایکٹ کے سیکشن 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا، اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کردیا، ایس او پیز کے مطابق سیکشن 20 کے تحت کسی شکایت پر گرفتاری نہ کی جائے۔ ، ڈی جی ایف آئی اے اور ہوم سیکرٹری ذمہ دار ہوں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پی ایف یو جے کی جانب سے پیکا آرڈیننس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل عادل عزیز قاضی نے عدالت میں دلائل دیئے۔
عادل عزیز قاضی ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کا اجلاس 17 فروری کو ختم ہوا، 18 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس تھا، اجلاس صرف آرڈیننس لانے کے لیے ملتوی کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے استفسار کیا کہ وہ کون سے حالات تھے جن میں جلد بازی میں آرڈیننس جاری کیا گیا؟
پی ایف یو جے کے وکیل نے کہا کہ خود کو عوامی نمائندہ کہنے والوں کو تنقید سے بھی نہیں ڈرنا چاہیے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عوامی نمائندے کے لیے ہتک عزت کا کوئی قانون نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ زمبابوے اور یوگنڈا نے بھی فوجداری قانون سے ہتک عزت کو ہٹا دیا ہے۔
اس موقع پر عدالت نے صدارتی آرڈیننس سے پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے پی ایف یو جے کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
خیال رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چند روز قبل پیکا ترمیمی آرڈیننس جاری کیا تھا جب کہ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا تھا کہ خاتون اول اور عمران خان کے بارے میں غلط خبریں پھیلائی گئیں کہ وہ گھر چھوڑ چکے ہیں۔ جو لوگ صحافی نہیں ہیں وہ صحافی ہیں۔ جعلی خبروں کو روکنے کے لیے قانون سازی ضروری تھی۔
آرڈیننس کے سیکشن 20 میں ترمیم کرتے ہوئے کسی بھی شخص کی شناخت پر حملے کی صورت میں قید کی سزا 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی ہے۔ غلط کام کرنے اور کسی شخص کی ساکھ یا نجی زندگی کو نقصان پہنچانے کی سزا 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی ہے۔