سعودی میڈیا نے کابینہ کی جانب سے منظور کیے گئے ’اثبات دعویٰ‘ قانون کی تفصیلات جاری کر دیں، اثبات دعویٰ قانون کی منظوری سعودی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی۔
اس حوالے سے سعودی میڈیا کے مطابق اثباتِ دعویٰ کا قانون 11 ابواب اور 171 سیکشنز پر مشتمل ہے۔ اس کا اطلاق تجارتی امور اور شہری امور پر ہوگا۔
اس سے شواہد کا قانون زیادہ موثر ہو جائے گا جبکہ شواہد کا دائرہ معقول معاملات تک محدود رہے گا۔
نیا قانون دعویٰ کو درست ترین شکل میں ثابت کرنے سے متعلق تمام معاملات کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ دعویٰ ثابت کرنا دعویدار کی ذمہ داری ہے۔
مدعی کو ان نکات کو ثابت کرنا ہوگا جو دعوے کا حصہ ہیں۔
حلف نامے کا قانون گواہی کے لیے شرائط بھی متعین کرتا ہے اور ایسے مقدمات کی نشاندہی کرتا ہے جن میں گواہی قبول نہیں کی جا سکتی۔
حلف نامے کا قانون ایک لاکھ رال سے زیادہ کے دعوے میں ثبوت کی ممانعت کرتا ہے، جس کے لیے دستاویزی ثبوت پیش کرنا ہوتا ہے۔
عام طور پر لوگ پیسے کی سب سے بڑی لین دین کو ثابت کرنے کے لیے گواہی دیتے ہیں، اس طریقے پر پابندی ہے، بڑی رقم عام طور پر بغیر دستاویزات کے کسی کو نہیں دی جاتی۔
اس کے علاوہ، بڑی رقم کے لین دین کے لیے دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے۔ گواہوں پر دو پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ گواہ کا دعویٰ کے کسی فریق سے تعلق نہ ہو۔ گواہ کا مقدمے سے کوئی مفاد نہ وابستہ ہو۔
جس شخص کی گواہی ذاتی نقصان کی تلافی کر رہی ہو یا جس کی گواہی سے فائدہ ہو اس کی گواہی بھی قابل قبول نہیں ہو گی۔
بچوں کے والدین یا شوہر کی بیوی کے حق میں یا بیوی کے شوہر کے حق میں گواہی قابل قبول نہیں ہوگی۔
سرپرست یا ذمہ دار کی گواہی (ٹرسٹی کی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی) فریقین کی موجودگی میں زبانی اور تحریری طور پر بھی دی جاسکتی ہے۔
نیا قانون گواہوں کو قانونی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ عدالت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ گواہوں کو ڈرانے، دھمکانے اور ان سے متاثر ہونے سے روکنے کے لیے ضروری اقدامات کرے۔
حلف نامے کے قانون میں عدالت کے سامنے دعوے کا سیاق و سباق بھی واضح کیا گیا ہے، عدالتوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ شواہد کے حصول میں سائنسی وسائل کی مدد لیں۔