افغانستان کو کنٹرول کرنے والے طالبان کے سپریم لیڈر، ہیبت اللہ اخوانزادہ نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے، جس میں وزارتوں کو خواتین کے حقوق کے خلاف سنجیدہ کارروائی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، لیکن اس فتوے میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق، اگست میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان کے سپریم لیڈر کی طرف سے یہ اپنی نوعیت کا پہلا فتویٰ ہے۔
فتویٰ میں طالبان رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ نے کہا کہ امارت اسلامیہ کی قیادت تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ خواتین کو حقوق دلانے کے لیے سنجیدہ اقدام کریں۔
فتویٰ میں شادی اور بیواؤں کے حقوق کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کوئی بھی مرد کسی عورت کو زبردستی شادی پر مجبور نہیں کر سکتا۔
طالبان کے سپریم لیڈر نے وزارت ثقافت اور اطلاعات کو حکم دیا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق سے متعلق مواد شائع کرے تاکہ جاری زیادتیوں کو روکا جا سکے۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی امدادی اداروں نے طالبان کے لیے امداد کی بحالی کے لیے خواتین کے حقوق کے احترام کو اہم شرط قرار دیا ہے۔
طالبان کے سپریم لیڈر کے فتوے میں لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، جسے بین الاقوامی برادری افغانستان میں ایک اہم مسئلے کے طور پر دیکھتی ہے۔
واضح رہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم اور خواتین کی ملازمت پر پابندی عائد ہے۔ طالبان کے پہلے دور حکومت میں 1996 سے 2001 تک خواتین پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں تھیں۔