Saudi Court

والدین میری شادی نہیں کروا رہے سعودی خاتون عدالت پہنچ گئی

سعودی عرب میں خواتین کو شادی کے لیے والدین یا سرپرست کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔ تاہم گزشتہ چند سالوں کے دوران سعودی خواتین خاصی خود مختار ہو رہی ہیں۔ ملازمتوں اور کاروبار میں بھی ان کی شمولیت بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ خود بھی معاشی لحاظ سے خود کفیل ہو رہی ہیں۔

سعودی سوشل ویب سائٹ کے مطابق سعودی عدالت میں بھی ایک دلچسپ معاملہ پیش ہوا ہے جس میں درخواست گزار لڑکی نے بتایا کہ اس کے والدین اس کی شادی نہیں کروا رہے۔ اس کے کئی سال تک متعدد رشتے آتے رہے، مگر والدین کوئی نہ کوئی نقص نکال کر ان رشتوں سے انکار کرتے رہے۔ جس کی وجہ سے وہ کئی سال کنواری بیٹھی رہی۔

بڑی مشکل سے اس نے والدین سے ضد کر کے ایک جگہ رشتے کے لیے ہاں کروائی تھی۔

تاہم منگنی ہونے کے باوجود والدین اس کی شادی نہیں کروا رہے تھے، کافی عرصہ تک والدین کی جانب سے ٹال مٹول کے بعد وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئی ہے۔ اس کی عمر بھی بڑھ رہی ہے۔ اس لیے وہ چاہتی ہے کہ عدالت اس کے والدین کے بغیر ہی اسے منگیتر سے شادی کرنے کی اجازت دے دے۔ عدالت کے جج نے سارا معاملہ سننے کے بعد خاتون اور اس کے منگیتر سے ہمدردی کا اظہار کیا اور پھر صرف پانچ روز کے اندر لڑکی اور لڑکے کا نکاح کروا دیا۔

عدالت نے ا س سے پہلے اس سارے معاملے کی چھان بین بھی کروائی تھی اور لڑکی کا بیان سچ ثابت ہونے کے بعد اجازت دی تھی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خاتون کے والد نے اپنی بیٹی کی شادی کے معاملے میں تاخیر کر کے شرعی فریضے میں کوتاہی برتی ہے۔ اگر والدین غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو پھر عدالت کو ہی سرپرست بن کر کسی بیٹی کی شادی کا فریضہ ادا کرنا پڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں