سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض نہ صرف تیزی سے کاروباری سرگرمیوں کا عالمی اور علاقائی مرکز بنتا جا رہا ہے بلکہ یہ تفریحی سہولیات اور مختلف تفریحی سرگرمیوں کا مرکز بھی بنتا جا رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ریاض کو بین الاقوامی بینکرز اور کاروباری ادارے طویل عرصے سے کام کی سہولیات کے شہر کے طور پر جانتے تھے اور ہفتے کے آخر میں سرگرمیاں کہیں اور گزارنے کا سوچتے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب کی مقامی اسٹاک مارکیٹ کا 2.6 ٹریلین ڈالر کا سرمایہ ابوظہبی، دبئی اور قطر کے مشترکہ دارالحکومت سے چار گنا زیادہ ہے۔
مملکت کا مقصد اگلے چار سالوں میں نجکاری کے ذریعے 55 بلین ڈالر اکٹھا کرنا ہے، اس میں تیل کی بڑی کمپنی سعودی آرامکو کو مزید اثاثوں اور ایکویٹی کی فروخت سے علیحدہ ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے آئندہ دہائی میں تیل کے علاوہ ملکی معیشت میں 3.2 ٹریلین ڈالر کی سرکاری اور نجی سرمایہ کاری کا تصور کیا ہے۔
تداول میں رجسٹرڈ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی تعداد 2019 میں 6 فیصد سے دگنی ہو گئی ہے اور سعودی عرب کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کورونا وبا کے دوران اضافہ ہوا ہے۔
اس سال کے شروع میں، ریاض شہر کے لیے ریجنل ہیڈ کوارٹر پروگرام کا آغاز دنیا بھر کی 480 معروف کمپنیوں کے ساتھ ریاض میں شاخیں قائم کرنے کے حتمی مقصد کے ساتھ کیا گیا تھا۔
ریاض ایک سماجی مرکز بھی بن سکتا ہے۔ میامی ریپر پٹبل ، ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ میچز اور نیو کیسل یونائیٹڈ فٹ بال کلب کی سعودی ملکیت مغرب کے ساتھ ثقافتی خلیج کو پُر کررہی ہے۔
ورلڈ ایکسپو 2030 کی میزبانی کے لیے ریاض میں بیورو انٹرنیشنل ڈسپوزیشنز کو حال ہی میں ایک بریفنگ بھی دی گئی ہے۔
ریاض شہر میں رائل کمیشن کے سی ای او فہد الرشید نے کہا کہ 1950 میں اس قصبے کی آبادی 15 لاکھ تھی اور اب یہ دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں سے ایک ہے۔
فہد الرشید نے گورننگ باڈی کو ریاض میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی، جن میں عالمی معیار کے کھیلوں کے لیے تعمیر شدہ بلیوارڈ اور ریاض میں کنگ سلمان پارک شامل ہیں، جو نیویارک کے سینٹرل پارک سے چار گنا بڑا ہے اور لندن کے ہائیڈ پارک سے دس گنا بڑا ہے۔
اس کے علاوہ ریاض شہر میں دنیا کے سب سے بڑے پبلک ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ ریاض گرین پراجیکٹ میں ہونے والی پیش رفت کے علاوہ ارد گرد کے علاقوں میں ہریالی کو برقرار رکھنے اور شہر میں صحت مندانہ سرگرمیوں کے لیے بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔