اگست کے وسط میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے افغانستان کے عوام بدحالی اور بے بسی کی ایک تاریک تصویر پیش کر رہے ہیں۔
جیسے ہی کابل طالبان کے قبضے میں چلا گیا، سینکڑوں مایوس افغان اپنا ملک چھوڑنے کے لیے ہوائی اڈے پر قطار میں کھڑے ہوگئے۔ بھیڑ بھاڑ سے بھرے طیارے مایوس افغانوں کے ساتھ ملک سے باہر نکلنے کے لیے اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑتے ہوئے دیکھے گئے۔
دنیا نے اس وقت دلخراش مناظر دیکھے جب کابل کے ہوائی اڈے کے رن وے سے اڑان بھرتے ہوئے امریکی فوجی طیارے سے پھسل کرگرنے سے متعدد افغان ہلاک ہو گئے۔
فرار ہونے میں کامیاب ہونے والے افراد کو قطر، جرمنی اور امریکہ کے مہاجر کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔
ان پناہ گزین کیمپوں کی تصویروں میں وہاں مقیم افغانوں کے مصائب کو واضح طور پر دکھایا گیا ہے۔
وہ لوگ جو کبھی افغانستان میں طاقتور تھے ان کیمپوں میں بے بس ہیں۔ دو روز قبل امریکی ریاست ورجینیا میں افغان مہاجرین کے کیمپ سے ایک تصویر منظر عام پر آئی ۔
تصویر میں، ایک آدمی کو بظاہر سوچتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے کہ وہ سر نیچے کر کے ایک فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا ماضی کی زندگی پر غور کر رہا ہے۔
تصویر میں نظر آنے والا شخص جنرل ہیبت اللہ علی زئی تھا جو طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے وقت افغانستان کے چیف آف آرمی اسٹاف تھا۔
تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
کچھ لوگوں نے اسے امریکی حکام کی طرف سے بے حسی قرار دیا اور افغان فوج کے ایک سابق جنرل کے ساتھ کیے گئے سلوک پر سوال اٹھایا۔
افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے سقوط کابل سے چند روز قبل علی زئی کو فوج کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ انہوں نے 11 اگست کو جنرل ولی احمد زئی کی جگہ آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا۔
افغان فوج کی کمان سنبھالنے سے قبل علی زئی افغان فوج کے خصوصی دستوں کے کمانڈو یونٹ کی سربراہی کر رہے تھے۔
ورجینیا میں قائم پناہ گزین کیمپ سے علی زئی کی تصویر وائرل ہونے سے پہلے، ایک اور تصویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس میں ان کے پیشرو احمد زئی کو ملک سے فرار ہونے کے لیے کابل ہوائی اڈے پر جہاز میں سوار ہونے کے لیے قطار میں کھڑے دکھایا گیا تھا۔