وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ، کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ ابھی بند نہیں ہوا، تاہم ریاست کی رٹ کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔
وہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے، جس میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ملک میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا، اور کالعدم تنظیموں کے احتجاج پر خصوصی توجہ دی گئی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ (وفاقی وزیر برائے مذہبی امور) نور الحق قادری اور میں کالعدم ٹی ایل پی سے بات چیت کریں گے۔”
دو گھنٹے تک جاری رہنے والے این ایس سی اجلاس میں تمام سروسز اور انٹیلی جنس سربراہان سمیت اعلیٰ سول اور عسکری قیادت نے شرکت کی۔
وفاقی وزراء پرویز خٹک، شیخ رشید، شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری بھی موجود تھے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے اس سے قبل کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ تمام راستے کلیئر کرنے اور حالیہ جھڑپوں میں متعدد پولیس اہلکاروں کی شہادت کے ذمہ داروں کے حوالے کرنے تک اس سے مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا۔
وفاقی وزیر نے عوام پر بھی زور دیا تھا کہ وہ جاری مظاہروں سے خود کو دور رکھیں اور کسی مہم کا حصہ بننے کے بجائے گھر واپس جائیں ۔
کالعدم تنظیم کے ارکان کا احتجاج آج (جمعہ کو) آٹھویں روز میں داخل ہو گیا، مظاہرین گزشتہ دو دنوں سے کامونکے میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
ابتدائی طور پر کالعدم گروپ نے ملتان اور لاہور میں دھرنے دیئے تھے جس کے بعد اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا تھا۔
سیکورٹی فورسز نے مظاہرین کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کے لیے بڑی سڑکوں کو گھیرے میں لے لیا ہے، یہاں تک کہ پیش قدمی کرنے والے ہجوم کو روکنے کے لیے کچھ جگہوں پر خندقیں بھی کھودیں۔
مظاہرین نے گزشتہ کئی دنوں سے جی ٹی روڈ پر دھرنا دے کر ٹرانسپورٹ کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔
ٹی ایل پی کے مارچ نے وفاقی دارالحکومت اور پنجاب کے مختلف شہروں میں نظام زندگی کوبھی متاثر کیا ہے۔
راولپنڈی میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والی اہم شاہراہوں کو سیل کر دیا گیا ہے اور فیض آباد میٹرو سروس معطل کر دی گئی ہے۔ متبادل راستوں پر شدید ٹریفک جام ہونے کی اطلاعات ہیں اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہےحتیٰ کہ ہسپتالوں میں جانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔